پھولوں سے خوشبو
میری شادی کو صرف ایک ماہ ہوا ہے، اب میں نے سوچ لیا ہے کہ سسرال میں نہیں رہوں گی۔ ان لوگوں نے میرے لئے گھر میں کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے ، دو دن مجھے آرام سے نہیں رہنے دیا۔ شادی کے تیسرے دن سےکام پر لگا دیا جیسے کہ میں نوکرانی ہوں اور مجھ سے نئے نئے کھانوں کی فرمائش کرنی شروع کردی جبکہ میں نے ان لوگوں کو شروع ہی سے بتادیا تھا کہ میں گھر کا کام نہیں کروں گی۔ ہمارے گھر میں نوکرانی تھی لہٰذا سسرال میں بھی یہ توقع کرسکتی ہوں۔ ابھی میرے کمرے سے پھولوں کی خوشبو بھی ختم نہیں ہوئی کہ مجھے یہاں رہنے نہیں دیاگیا۔ اگر رہوں تو اذیت میںورنہ میکے چلی جائوں۔ (ماریہ خاور۔ اسلام آباد)
مشورہ:شاید آپ کو معلوم نہیں کہ ، اس دنیا میں کوئی بھی لڑائی جھگڑے سے اپنا مقام نہیں بناسکا۔ خاص طور پر لڑکیاں جب ان کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اور وہ سسرال میں سب کے ساتھ رہنے پر مجبور بھی ہوں۔ ایسے حالات میں بہت سی باتوں کو نظر انداز یا در گزر کرکے ہی اپنی جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ آپ محبت دیں تو محبت ملے گی، اگر اپنی برتری جتانے کی کوشش کریں گی تو کوئی آپ کو قبول نہ کرے گا۔ اصل میں تو تعلقات بنانے میں آپ ناکام ہورہی ہیں نتائج بھی سامنے ہیں۔ اب بھی وقت ہے، میکے میں رہنے کا خیال چھوڑ دیں اور اپنے گھر میں دل لگائیں، ابتداء میں مشکل ہوگی لیکن آپ کے اچھے روئیے سے آہستہ آہستہ تبدیلیاں آنے لگیں گی۔ بات کریں تو پھول جھڑیں اور باتوں سے خوشبو آئے۔
میری مجبوری ۔۔۔!!!
مجھے بچپن ہی سے بیماریوں کا خوف رہا ہے، گھر میں کسی کو بخار ہوتا تو میں اپنے برتن تولیہ اور چادر وغیرہ الگ کرلیتی تھی۔ اب شادی کے بعد جوائنٹ فیملی میں رہنا میری مجبوری ہے۔ چند ہفتے قبل جیٹھ کے بیٹے کو خسرہ نکلی، مجھے بھی وہم ہوگیا مگر اپنے حوالے سے نہیں بلکہ بچوں کے بیمار پڑ جانے کا خطرہ محسوس کرنے لگی۔ ہر طرح احتیاط کے باوجود میرا چھوٹا بچہ اس مرض سے متاثر ہوگیا۔ اب میں اپنے شوہر سے کہتی ہوں کہ الگ گھر لے لیں مگر وہ رضا مند نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک والدہ حیات ہیں، ہم سب ساتھ رہیں گے، میں آپ کو بتا نہیںسکتی کہ مجھ پر کوئی بھی بیماری لگنے کا کتنا خوف مسلط ہے۔ (کنول اختر ۔ لاہور)
مشورہ:آج کے دور میں جبکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چھوڑتے جارہے ہیں، جوائنٹ فیملی سسٹم ٹوٹتاجارہا ہے اور پھر خدا نہ کرے فیملی سسٹم کے ٹوٹنے کی باری آئے۔ اگر کوئی ساتھ رہتا ہے تو بڑے خلوص اور محبت کی بات ہے۔
کسی بھی مرض کی وبا پھیلتی ہے تو وہ لوگ بھی شکار ہوسکتے ہیں جو احتیاطی تدابیر کررہے ہیں اور ایک گھر میں بیماری ایک سے دوسرے کو لگنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن اگر اس طرح کی وبائی بیماری سے بچائو کے ٹیکے لگے ہوں تو وہ بچے محفوظ رہتے ہیں اور اگر بیماری ہوتی بھی ہے تو بہت معمولی نوعیت کی اور جلد بہتری آجاتی ہے۔ اس طرح کی بیماریوں کے جراثیم عام طور پر گلے اور ناک سے بہنے والی پانی سے ایک بچے کو دوسرے بچے سے لگ سکتے ہیں۔ ساتھ کھیلنے اور کھانے پینے سے بھی گریز کرنا چاہیے ، جہاں سب ساتھ رہتے ہیں وہاں ایک دوسرے کا خیال رکھنا از حد ضروری ہوتا ہے۔ ایک بچہ بیمار ہوتو ان کے والدین خودہی اسے اپنے دوسرے بچوں سے دور رکھیں۔ آپ بیماری سے بچائو کی جو تدابیر کررہی ہیں وہ اچھی ہیں جبکہ آپ کا یہ خوف بچپن کا ہے، اس صورت میں تو اب اسے اور آگے تک نہیں چلنا چاہیے، آپ نے اس پر بات کرکے اچھا کیا ہے۔ بچہ بیمار ہوا علاج کروایا ، اب وہ ٹھیک ہوگیا یا ٹھیک ہورہا ہے، کبھی یہ بھی توہوسکتا ہے کہ خدا نہ کرے آپ کا بچہ بیمار ہوا اور اس سے گھر کا دوسرا بچہ متاثر ہوجائے ۔ اگر آپ الگ رہ رہی ہوں تو محلے سے کسی بچے سے بیماری منتقل ہوجائے یعنی بیماری تو احتیاطی تدابیر کرنے کے باوجود بھی ہوسکتی ہے، صحت و تندرستی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہی بیماری سے شفا دینے والا ہے۔ لہٰذا پھر ایسی کسی بات سے کیوں کر خوفزدہ رہا جائے جس پر ہمارا اختیار اس قدر نہ ہو کہ ہم کوئی دعویٰ کرسکیں۔ سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں اور بچوں کی صحت کی بہتری کیلئے دعا کرتی رہیں۔ اگر کوئی بیمار ہو تو اس کی مزاج پرسی ضرور کریں، اس کیلئے دعا بھی کیجئے اور اگر کسی کام آسکتی ہیں تو ضرور آئیں۔ جو لوگ دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور خلوص رکھتے ہیں ، مشکل وقت پر کام آتے ہیں، خود کسی مشکل کا شکار نہیں ہوپاتے۔
اکیلا رہ جائوں گا
میری والدہ کے بارے میں ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ان سے پہلے جیسے رویے کی امید نہ کریں، ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا دماغ بچوں کی طرح ہوتا جارہا ہے، انہیں وقت پر کھانا کھلانا پڑتا ہے اور بہت سے کام بھی ہم لوگوں کو ہی کرنے ہوتے ہیں۔ میں شروع سے اپنی ماں سے بہت قریب ہوں۔ بیوی سے بھی کہا ہوا ہے کہ ماں کا خیال رکھو گی تو میں تمہارا خیال رکھوں گا۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ یہ مرض ذہنی مرض ہے اور یہ بھی سنا ہے کہ دماغی بیماریوں کا شکار لوگوں کی عمریں عام لوگوں سے کم ہوتی ہیں، اگر میری ماں مجھ سے جلد جدا ہوجائیں گی تو بہت اکیلا رہ جائوں گا۔ وہ جیسی بھی ہوں، زندہ رہیں تو میں بھی ٹھیک رہوں گا ، لوگوںکو اپنی موت سے ڈر لگتا ہے اور مجھے امی سے دور ہوجانے کا ڈر ہے۔ (نعمان اختر ۔ لاہور)
مشورہ:بہت اچھی بات ہے کہ اس دور میں آپ والدہ کے فرمانبردار اور ان سے محبت رکھنے والے بیٹے ہیں ورنہ جیسے جیسے دنیا ترقی کررہی ہے یہاں بوڑھوں کیلئے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ والدہ ذہنی مریض ہیں لیکن انہیں جو مرض ہے اس میں عمر کم ہونے کا خطرہ نہیں۔ وہ دوسرے امراض ہوتے ہیں جن میں عمر کم ہوتی ہے اور ایسا عموماً خصوصی بچوں میں ہوتا ہے یہ عام لوگوں کے مقابلے میں کم عمری میں ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، اگر جوان ہوجائیں اور معمول کے مطابق ایک حد تک زندگی بھی گزار رہے ہوں تب بھی ان میں دل کے امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ مگر کسی کو محض ذہنی مرض کی وجہ سے موت کا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ آپ والدہ کا خیال ضرور رکھیں لیکن ان کے معاملے میں کسی خوف یا ذہنی دبائو کا شکار ہوکر دیگر اہل خاندان خاص طور پر بیوی بچوں سے رویہ اور تعلقات کبھی خراب نہ کریں کیونکہ ان کے حقوق پورے کرنا اور ان کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنا بھی ضروری ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں